یہ ہے سن 1986 اور یہ اندھیرے میں ڈوبا دنیا پور کے قریب کا ایک نواحی گاٶں مٹھن ہے ، جہاں کچی مٹی کی دھول اُڑاتی من من مٹی سے بھری گلیوں میں کچے مکان زیادہ اور پکے مکان کم ہیں پر انہی مکانوں میں اونچاٸ پر رکھ کر بناٸ گٸ ایک حویلی حاکم قصر کے نام سے مشہور پورے گاٶں میں اپنی مثال آپ ہے ۔
یہ خوبصورت شاہی طرز کی حویلی گاٶں کے لمبردار اور ناٸب ناظم چوہدری حاکم دین کی حویلی ہے اگرچہ بجلی تو گاٶں کے بیشتر گھروں میں گزشتہ تین برس سے آ چکی تھی پر پھر بھی اکثر جب جاتی تو پھر دورانیہ کٸ گھنٹوں سے کبھی کبھار دنوں پر مشتمل ہو جاتا تھا ۔
حاکم قصر کا لکڑی کا بنا پھاٹک نما گیٹ بہت بڑا تھا جس کے دونوں پٹ تو کبھی سالوں بعد حویلی کی کسی بڑی تقریب پر ہی کھلتے تھے اس کے باہر لمبی راہداری کے گرد بڑے بڑے مہمان خانے تھے جہاں چوڑے پاۓ والی اور موٹے بانس والی چارپاٸیاں جگہ جگہ سجی تھیں جہاں دن میں حاکم دین سے ملنے ملانے والوں کو ہجوم لگا رہتا تھا ۔
اس راہداری سے اور کھلے برانڈوں کے مہمان خانوں سے آگے داخلی بھورے رنگ کا بڑا پھاٹک تھا جس پر لوہے کے بڑے بڑے ابھار تھے اس میں داخل ہونے کے لیے ایک چھوٹا سا گیٹ رکھا گیا تھا جو صبح روشنی پھیلنے سے قبل فجر کی اذان کے ساتھ ہی کھل جاتا تھا اور پھر مغرب کے بعد اندھیرا ہونے اور تمام مکینوں کے گھر آ جانے پر بند ہوتا تھا ۔
گیٹ کھلتے ہی سرخ اینیٹوں کی قدرے چوڑی روش تھی جو ایک گیلری کی صورت میں گھر کے اندر پردہ پڑنے کی غرض سے رکھی گٸ تھی اس سے آگے گزرتے ہی ایک کشادہ سرخ اینٹوں کا صحن تھا ۔
اینٹوں کی رگڑاٸ اس سلیقے سے کٸ گٸ تھی کہ کوٸ اینٹ بھی اونچی نیچی نہیں تھی ۔ صحن میں تین جگہ بڑے بڑے درخت تھے دو نیم کے اور ایک پیپل کا ، درختوں کے پیچھے اینٹوں کو تکون رخ زمین میں گاڑ کر باڑ کی شکل دی گٸ تھی اور پیچھے لان بنایا گیا تھا جہاں گھاس کے بجاۓ زیادہ سبزیاں ہی اُگی ہوٸ تھیں ۔
صحن کے بلکل وسط میں ایک بڑا سا فوارہ تھا جس میں اس وقت ایک بڑی سی لالٹین لٹک رہی تھی ۔ یہ قندیل حویلی کی سب سے بڑی قندیل تھی اس لیے مغرب کے بعد اندھیرا ہوتے ہی تاری بوا اس کو فوارے کی نوک کے ساتھ لٹکا دیتی تھی ۔ قندیل کے گرد مچھر اور پتنگے قندیل کے بند شیشے سے ٹکرا کر فوارے کے خالی فرش پر گر رہے تھے ۔
تاری بوا حویلی کی پرانی ملازمہ تھی جو اپنی دو بیٹیوں ، شمو اور سکینہ کے ساتھ حویلی کے پچھلے حصے میں ڈالے گۓ چھوٹے سے کچے مکان میں رہتی تھی جہاں وہ بس سونے کی غرض سے ہی جاتی تھی باقی کا سارا وقت تو یہیں حویلی میں گزرتا تھا ۔
فوارے پر لٹکتی لالٹین کی روشنی لگ بھگ پورے صحن کو روشن کرتی تین زینے کی اونچاٸ پر کمرے کے آگے بنی لمبی اٹاری کو بھی روشن کیے ہوۓ تھی ۔
زینے چڑھ کر لمباٸ رخ بنی اس لمبی دہلیز میں حویلی کے تمام مکینوں کے کمرے تھے ۔ اور اٹاری کے دونوں اطراف چھت کو جاتے زینے تھے ۔
چوہدری حاکم دین جدی پشتی زمیندار اور لمبردار تھے ۔ پاک و ہند کی تقسیم کے وقت وہ ان خوش قسمت مسلمانوں میں شمار ہوۓ تھے جو پہلے سے ہی پاکستان کے رہاٸیشی تھے ۔
ہندوستان کو ہجرت کر جانے والے مٹھن گاٶں کے ایک خاندان کے تمام افراد ہلاک ہو گۓ تھے مسواۓ ایک بارہ سالہ بچی کے جسے اس وقت چوہدری حاکم کے والد اپنے ساتھ گھر لے آۓ تھے اور پھر اسے داٸرہ اسلام میں لانے کے بعد اسے خدیجہ کا نام دے کر اپنے اکلوتے سپوت حاکم دین کی زوجیت میں دے دیا تھا ۔
چراغِ شام سے پہلے ہما وقاص کی ایک خوبصورت تحریر ہے جو پچھلے وقتوں کی عکاسی کرتی ہے۔
ONLINE READ:
PDF DOWNLOAD LINK: