’’السّلام علیکم!‘‘ فوزان صدیقی اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے ہوئے بیٹھنے کو کہاتھا۔
’’بے وقت آکر کہیں میں نے آپ کو پریشان تو نہیں کردیا؟‘‘ دونوں کودیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔ ضوفی ایک دم مسکرادی۔
’’نہیں … آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ بالکل صحیح وقت پر آئے ہیں۔‘‘ جواب بھی ضوفی کی طرف سے موصول ہواتھا۔ وہ مسکراتے ہوئے لائبہ کو دیکھنے لگاجیسے تصدیق چاہ رہا ہو وہ نظر انداز کرتی ہوئی معذرت کرکے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نماز ادا کرکے وہ ڈرائنگ روم میں جانے کی بجائے کچن میں چلی آئی۔ ضوفی موصوف سے باتوں میں مگن ہوچکی تھی‘ سو وہ خود ہی چائے بنانے لگی۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن تھی کہ پتاہی نہ چلا کب فوزان صدیقی دروازے کی چوکھٹ پر آکھڑا ہوا تھا۔
’’آپ کو میرا یہاں آنا برا لگا ہے؟‘‘ آواز پر وہ چونکی تھی‘ پھر اسے وہاں کھڑے دیکھ کر حیران ہوئی۔
’’آپ…! نہیں…‘‘ ابلتی ہوئی چائے کے نیچے اس نے آگ دھیمی کردی۔ ساتھ ہی رخ موڑ کر فریج سے کیک اور بسکٹ نکالنے لگی۔
’’آپ جھوٹ بولنے میں ماہر نہیں‘ کوشش بھی مت کیا کریں۔ آپ کا چہرہ آپ کے جھوٹ کا ساتھ نہیں دے پاتا۔‘‘ اس کی اس بات پر وہ تڑپ کر پلٹی تھی۔ تنبیہی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ فوزان صدیقی کی آنکھوں میں ایسا کچھ ضرور تھا کہ وہ بے اختیار پلکیں گرانے کے ساتھ ہی رخ بھی موڑ گئی۔ نجانے کیوں یہ شخص اسے ہمیشہ الجھا دیتاتھا۔اسے پریشان کردیتاتھا جبکہ وہ اپنی حدود میں رہنا چاہتی تھی۔ بچی نہیں تھی جو اس کی آنکھوں کے پیغام نہ سمجھتی۔
’’آپ تو یوں کہہ رہے ہیں جیسے قیافہ شناسی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ضروری تو نہیںآپ کے اندازے درست ہوں۔‘‘ اس شخص کے سامنے آنے پر وہ ہمیشہ تلخ ہوجاتی تھی۔ اب بھی وہ کہے بغیر نہیں چوکی تھی۔ وہ بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔ اسے اور غصہ آنے لگا۔
’’آخر یہ شخص چاہتا کیا ہے؟ کیوں بار بار دستکیں دے رہا ہے۔ ان کواڑوں پر جو زنگ آلود ہیں‘ کبھی نہیں کھلتے۔‘‘
اس کی اس شخص سے یہاں تیسری ملاقات تھی‘ وہ پہلے دن سے اب بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ پھر بھی ہربار وہ ملتے وقت اور ملنے کے بعد اس سے خوامخواہ الجھ پڑتی تھی۔
ONLINE READ:
PDF DOWNLOAD LINK:
ZARD MAUSAM KAY DUKH BY SUMAIRA SHAREEF TOOR