HAMARI KAHANI BY FATIMA LAGHARI

HAMARI KAHANI BY FATIMA LAGHARI

”تمہیں لگتا ہے اس سب کے بعد میں تمہیں بخش دوں گا؟“ ان کے سوال پر میں نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا تھا۔
”آپ میری جان کے عذاب ہیں، جنت میں لے جاکر دم لیں گے۔“ میں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر دانیال کی سخت نظروں نے مجھے مسکرانے سے باز رکھا۔
”تمہاری شوگر لیول لو ہوگئی تھی۔ میں نے تمہیں واک کے بعد فریش جوس پینے کا کہا تھا؟“ وہ کسی استاد کی طرح مجھ سے سوال کررہے تھے اور مجھے کسی فرمانبردار شاگردہ کی طرح ان کی تائید میں اپنی گردن ہلانا تھی۔ میں نے یہی کیا۔
”تم نے میری بات کیوں نہیں مانی؟“
”بھول گئی تھی۔“ میں نے دانتوں کی نمائش کروائی۔
”اور نتیجتاً تم اسپتال کا چکر لگا آئیں اور ان پانچ گھنٹوں میں مجھے امی نے اتنی سنائی ہیں جتنی انہوں نے کبھی ساری زندگی میں نہیں سنائیں!“ وہ زچ ہوگئے تھے۔
”وہ میرا خیال کرتی ہیں، انہیں میری پروا ہے۔“ میں مسکرائی۔
”میں بھی تمہارا دشمن نہیں ہوں امیمہ!“ وہ خفا ہوئے۔
”جی، اگر ہوتے تو آپ کی بانہوں میں جھولنے کے بعد میری آنکھ سیدھا قبر میں کھلتی۔“ میں نے سر کو خم دے کر کہا اور دانیال۔۔۔دانیال نے پلک جھپکی۔
”تم میری بات کو سنجیدہ نہیں لے رہیں؟“
”آپ میری زندگی کو سنجیدہ لے لیں، میں اسی وقت سے آپ کی باتوں کو سنجیدہ لینا شروع کردوں گی۔“ میں نے کہا نا، ہمارے درمیان اکثر لڑائیاں اسی وجہ سے ہوتی تھیں کہ میں زبان چلاتی تھی اور دانیال رعب جماتے تھے۔
”امیمہ۔۔میں تمہاری پروا کرتا ہوں!“ اس وقت ان کا انداز بہت دھیما اور نرم سا تھا۔ آنکھوں میں میرے لیے واقعی پروا تھی۔ میں ان کی بلائیں لینا چاہتی تھی مگر مگر۔۔۔میں جانتی تھی یہ کونسی پروا تھی۔ اس بار گری تو قبر میں ہی آنکھ کھلے گی۔
”دانیال۔۔ آپ میری پروا مت کریں۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔“ میں نے التجا کی تھی۔
”بھول جاؤ! شوہر ہوں تمہارا، تمہارا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔“ وہ ایکدم سے واپس اسی ٹون میں آگئے۔ پھر سے مجھے گھورنے لگے۔ میں خاموش رہی۔ وہ مجھے گھوری سے نواز کر پلٹ گئے۔ پھر جب وہ کمرے سے نکل رہے تھے تو دروازے کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے رک مجھے دیکھا تھا،
”تمہارا وزن تمہاری عمر کے حساب سے تھوڑا زیادہ ہے۔ تم تو گری ہی تھیں، تمہاری وجہ سے میں بھی گرنے والا تھا۔ میں اس کے متعلق بھی سوچوں گا، ہمیں حل نکالنا ہوگا!“ بہت سنجیدگی سے میری سماعت میں بم پھوڑ کر وہ دفعان ہوگئے تھے۔ میری ٹانگوں میں جان نہیں رہی تھی اور اس بار۔۔۔۔
میں بیڈ پر گری تھی۔ اور میں کبھی نہیں اٹھنا چاہتی تھی، کبھی نہیں!

Download Link is given below:

ONLINE READ:

PDF DOWNLOAD LINK:

CLICK HERE TO DOWNLOAD

Our Instagram:

@novelsclubb

Our Whatsapp Channel Link:

JOIN OUR WHATSAPP CHANNEL

1 Comment

  1. bia Ramzan

    I did not want that this novel end plz write more scenes

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *