MERI EID TUM SAJAN BY ANA ILYAS PDF NOVEL

“دئير از نتھنگ ٹو لاف اباؤٹ” وہ چڑچڑے لہجے میں بولا۔
“کيا کروں کتنی کيوٹ لڑائياں ہيں تم دونوں کی اور پتہ ہے کبھی کبھی ايسی لڑائيوں کا ايںڈ شديد ترين محبت کی صورت نکلتا ہے” وہ مسکراتے ہوۓ بولی۔
“اوہ پليز۔ کہيں ہو ہی نہ جاۓ محبت وہ بھی اس نک چڑی ابرہ سے۔۔۔اف صارم نے کيسے برداشت کيا اسے چار سال۔ يار تب يہ ايسی نہيں تھی۔۔اتنے اچھے اخلاق کی تھی۔”
“تب اس کو چاہنے والا، اس کے ناز اٹھانے والا کوئ ہر لمحہ اسکے آس پاس تھا۔ اب وہ کس کے ساتھ ہنس کر بولے۔ تم خود سوچو کس دن تم نے اسکے پاس بيٹھ کر اسکے زخموں پر مرہم رکھی ہے۔ حاشب کچھ رشتوں ميں لوگ آپکو اپنے نزديک آنے کا موقع نہيں ديتے آپکو وہ موقع خود نکالنا پڑتا ہے۔ تم زبردستی اسے اپنی جانب آنے پر مائل مت کرو تم ايک اچھے دوست کی طرح زبردستی اسکے غم تو بانٹ سکتے ہو۔ تمہيں صرف اس بات کاڈر ہے کہ شاپنگ والے واقع کی طرح وہ تمہاری اس دوستی کو بھی ريجيکٹ کردے گی۔ ايک بار کرے گی دو بار کرے گی آخر تيسری بار وہ تمہارا سہارا ڈھونڈے گی۔ ايک بار زبردستی اس کا دکھ تو بانٹ کر ديکھو۔
حاشب جو لوگ آپ کی تکليف کو بھانپ کر خود دس قدم بڑھا کر آپکی جانب آتے ہيں۔ زبردستی آپکے آنسو پونچھتے ہيں ان سے ايک عجيب سا محبت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ جو پھر کبھی نہ تو ايسے غمگسار کو بھولنے ديتا ہے اور نہ ہی کبھی دل سے انہيں نکلنے ديتا ہے۔ پہلے اس بات کا تعين کرو کہ کيا تم اسکی تکليف بانٹنے کے لئيے مخلص ہو یا پھر سب کے پريشرائز کرنے پر يہ فيصلہ لے ليا تھا اور اب پچھتا رہے ہو۔” ثانیہ نے بہت کڑا سوال کيا تھا۔
“آف کورس يار۔ اسے اب اس قدر سنجيدہ صورت بناۓ ديکھ کر اسکا وہ ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آتا ہے جو صارم کی موجودگی ميں تھا۔ ميں اس کو زندگی کی جانب لانا چاہتا ہوں۔ اس قدر ويرانی اسکے چہرے اور آنکھوں سے ٹپکتی ہے کہ ميں خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔ اس کی عمر اتنی تکليف برداشت کرنے کی نہيں ہے۔ نجانے کيا کيا سوچتی رہتی ہے وہ۔ اکثر شام کی چاۓ ہم پينے لگيں تو اسکا کپ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ کھانا کھاتے جب تک مام نہ ٹوکيں وہ بس پليٹ ميں يا تو چمچ ہلاۓ جاتی ہے يا پھر نوالا گھماۓ جاتی ہے۔ميں اسے زندگی کی جانب لانا چاہتا ہوں مجھے ڈر ہے ڈپريشن کا شکار نہ ہوجاۓ۔ جو لوگ اپنے دل کا حال کسی کو نہيں بتاتے وہ پھر آہستہ آہستہ ڈپريشن ميں جاکر کبھی کبھی ايسے مقام پر پہنچ جاتے ہيں جہاں انہيں زندگی سے نفرت ہوجاتی ہے۔ بے شک عنايہ کا ساتھ اسکے لئيے تسلی بخش ہے مگر وہ اس سے اپنے محسوسات تو شئير نہيں کرسکتی نا۔ اور عنايہ اب اسکی بے توجيہی کو سمجھنے لگ گئ ہے۔ کچھ سمجھ نہيں آرہی کيا کروں” وہ ٹھنڈی آہ بھر کر وہ سب کہہ گياجس پر وہ خود بھی حيران تھا کہ اس نے کب ابرہ کا اتنی باريک بينی سے مشاہدہ کيا تھا۔
“شکر مجھے اتنی تو تسلی ہوئ کہ تم اس سے کوئ دشمنی باندھے ہوۓ نہيں ہو” ثانيہ شرارتی انداز ميں بولی۔

ONLINE READ:

PDF  DOWNLOAD LINK:

میری عید تم سجن

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *