Taqazaye Muhabbat By Maham Mughal
کدھر۔۔۔۔!” جب وہ اپنا کمبل اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھانے لگی تو جہانگیر نے یکلخت اس کی وہی کلائی تھامی کہ حیام اس افتاد پہ سہم کے ہلکا سا چیخ پڑی۔
“مجھے نیند آرہی ہے۔۔” اپنا ہاتھ چھڑانے کی سعی کرتے وہ بغیر دیکھے کہنے لگی، جب جہانگیر نے اس کی کلائی کو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔ وہ سکون بھرا سانس لینے کو تھی کہ سانس وہی اٹک گئی جب جہانگیر کو اپنی سمت بڑھتا پایا۔
” سکون سے یہاں پہ لیٹو ورنہ مجھ سے برا نہیں ہو گا۔” وہ رعب سے کہتا اس کا تکیہ اٹھائے واپس بیڈ پہ اپنے تکیے کے قریب رکھ گیا۔
“آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔” وہ بےساختہ ہی کہہ گئی اور اس کی بات کا اثر لیے بغیر اپنا تکیہ واپس اٹھا کے مڑنے لگی کہ اپنے بےحد قریب پیچھے کھڑا پا کے وہ دل تھام گئی۔
جن سخت نظروں سے وہ حیام کو گھور رہا تھا ابھی وہ کہیں سے بھی نرم رویہ رکھنے والا نہیں بلکہ جلاد سر عاصم ہی لگ رہا تھا، حیام نے گھبراتے اپنی پلکیں اٹھاتے اس کو دیکھنا چاہا لیکن دوبارہ سے نظریں جھکا گئی اور شرافت سے اپنا تکیہ واپس بیڈ پہ رکھتے آہستہ سے بیٹھ گئی۔ اس کو واپس بیٹھتا دیکھ وہ چالاکی سے اپنی مسکراہٹ دباتا اپنی سائیڈ آیا اور لیٹنے لگا لیکن حیام کو ایسے ہی سٹل دیکھتے گہرہ سانس بھر کے رہ گیا۔
“لیٹ کیوں نہیں رہی۔۔۔” اس کی آواز پہ حیام تذبذب کا شکار ہوئی اور ایسے ہی دوسری جانب منہ کیے بیٹھی رہی۔ دو پل تو جہانگیر اس کی پشت پہ کالی گھنی چوٹی کو گھورتا رہا’ جواب نہ پاتے وہ اٹھ کے خود اس کے قریب ہو کے پیچھے بیٹھا، آگے جھکتے اس نے حیام کا کینولہ لگا ہاتھ تھامنا چاہا۔
“لیٹ کیوں نہیں رہی، طبیعت ٹھیک ہے؟” اپنے بہت قریب پیچھے سے اس کو محسوس کرتے پھر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیکھتے وہ پل میں گھبرا گئی اور دھڑکنوں نے رفتار پکڑی۔
اس کے پیچھے بیٹھتے جس طرح سے اس نے اپنا بازو آگے کیا تھا حیام کا بازو اس کے بازو کا لمس محسوس کر رہا تھا۔
” بتاؤ۔۔۔” کینولہ لگے ہاتھ کی پشت کو نرمی سے انگھوٹھے سے سہلاتے وہ پھر پوچھنے لگا، وہ کیا جواب دیتی وہ اچانک اس کے قرب میں، اس کے لمس سے خود گھبرا اٹھی تھی۔
” سس۔۔۔سر پیچھے ہٹیں۔” اتنی آہستہ آواز میں بولی کہ وہ اگر قریب نہ ہوتا تو شاید ہی سن پاتا۔
“عاصم جہانگیر نام ہے میرا سر نہیں۔۔۔” اس کا سر کہنا اسے برا لگا تھا تبھی وہ سنجیدگی سے بتانے لگا ساتھ ہی اس کے بکھرے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگا۔ اس کی انگلیوں کا لمس اپنے چہرے کان پہ محسوس کرتے وہ بدک کے اٹھی۔
“پلیز سر۔۔۔” وہ جھلا کے بولی جبکہ رخسار جیسے تپ اٹھے تھے۔
“واپس آؤ حیام۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا اس کا اچانک اٹھنا اسے ناگوار لگا تھا جبکہ حیام اب بے بسی سے اسے دیکھنے لگی وہ کیسے اسے بتاتی کہ وہ شرم جھجک سے نہیں جا رہی تھی وہاں، اسے ڈھیروں شرم آرہی تھی کہ جہانگیر اس کا سر رہ چکا تھا۔