اس واقعے کے بعد ماہین نے خود کو گھر کے اندر بھی ایک بڑی چادر میں چھپا لیا تھا ۔ منیب حسیب کے سامنے وہ نہیں آتی تھی ۔ باشتہ اور کھانا وہ انکے آنے سے پہلے میز پہ لگا دیتی تھی ۔ صفائی ستھرائی کا کام وہ انکے آفس جانے کے بعد کرتی تھی ۔ اور ناجیہ اس کی اس حرکت سے خوش ہی ہوئی تھی کہ ایسے کبھی بھی حسیب، منیب کی نظر اس پہ نہیں پڑتی ۔ مہمانوں کے سامنے وہ جاتی نہیں تھی ۔ گھر کے کام ختم کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی تھی ۔ جہاں دو چار رسالے ، کچھ ردی ہوئی کتابیں اور چند پرانے اخبار تھے جنہیں بار بار پڑھنے سے وہ حفظ ہو چکے تھے ۔ اس کے پاس تفریح کا کوئی ذریعہ نا تھا ۔ ٹی وی وہ شروع دن سے ناجیہ کے ڈر سے نا دیکھتی تھی ۔ نوکروں کو اس کے آنے کے بعد نکال دیا گیا تھا ۔ کوئی ذی روح ایسا نا تھا جس سے وہ بات کر سکتی جس کے ساتھ دو گھڑی بیٹھ کے ہنس بول لیتی کہ ایسے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہی باقی رہ جاتا ۔ اب تو فقط دو وقت کی روٹی اور سر پہ چھت رہے وہ دن بھر کام کرتی رات کو اپنے بچھڑے رشتوں کی یاد میں آنسو بہاتی رہتی زندگی ایک خاموش تاریک رات کی مانند ہو گئی تھی ۔ جس کا سویرا جانے کب ہونا تھا ۔
ONLINE READ:
PDF DOWNLOAD LINK: