وہ کب سے سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی، دونوں کُہنیاں گھٹنوں پر ٹکی ہوئی تھیں اور اُنہیں پر دونوں بازو رکھے وہ گالوں پر ہاتھ رکھے جاتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔۔ ثمینہ سمجھ گئیں کہ آج پھر وہ اپنے بابا کو یاد کررہی ہے۔۔۔
“مِنہا!!”۔۔۔ اُنہوں نے اُس کے برابر بیٹھ کر اسے پُکارا۔۔۔
“جج جی اماں”۔۔۔ اس نے ہڑبڑا کر اپنے آنسو چُھپانے چاہے تھے۔۔۔
“میرا بچہ!!”۔۔ انہوں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔۔اُس کی آنکھوں سے لاتعداد آنسو اُن کی گود کو بھگوتے چلے گئے تھے۔۔ خود پر قابو پاکر اُنہوں نے جُھک کر اُس کا سر چوما تھا۔۔
“مِنو تمہیں پتا ہے مرنے کے بعد انسان کے حق میں اس کی نیک اولاد کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جب بھی تمہیں تمہارے بابا یاد آئیں ناں تو تم ان کی مغفرت کی دعا کیا کرو”۔۔ ثمینہ اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، شوہر کو یاد کر کے وہ خود بھی اداس ہوگئی تھیں۔۔ مِنہا کو افسوس ہوا تھا فوراً اٹھ کر اُس نے اُن کے گال پر زور سے بوسا دیا تھا۔۔
“اماں آج کھیر بنا دیں اور میں آج پلاؤ بھی کھاؤں گی”۔۔ اُس کے بہلانے پر ثمینہ نے مُسکراتے ہوئے اُس کی آنکھیں صاف کی تھیں۔۔
“سب بنا دوں گی ابھی اپنی گڑیا کو”۔۔۔ اُس کا ماتھا چوم کر وہ کھڑی ہوئی تھیں۔۔
“چلو اٹھو مغرب ہونے کو ہے نماز پڑھ لو”۔۔ وہ بھی فوراً سے کھڑی ہوئی تھی
Pingback: BYA AHMAD ALL NOVELS PDF DOWNLOAD LINKS - NovelsClubb